انا للہ و انا الیہ راجعون
ڈاکٹروں کے مشورے پر قدرت اللہ شہاب روزانہ صبح سیر پر جاتے تھے۔ایک روز جب وہ ساڑھے گیارہ بجے گھر واپس پہنچے تو چہرا سرخ تھا اور آنکھوں میں سنبھالے کی چمک تھی جیسے بہت تیز مے پی رکھی ہو اور قدموں کو ڈگمگانے سے روک کر چل رہے ہوں۔ہونٹوں پر مسکراہٹ کے بجائے انبساط کی ابھرتی ہوئی سے ہنسی تھی۔ایک مٹھی بند تھی اور دوسرا ہاتھ دل پر رکھا ہوا تھا۔بہن محمودہ بولیں"بھائی جان دودھ لاؤں؟" شہاب صاحب نے وجد میں آکر سر ہلاکر کہا"ضرور ضرور"
کہنے لگے"آج ایک انعام ملا ہے"
میں نے کہا"انعام تو آپ کو زندگی بھر ملتے رہے ہیں۔ یہ کونسی نئی بات ہے"
کہنے لگے"یہ انعام سب سے بڑا سب سے قیمتی اور سب سے آخری ہے اس کے لیے بڑے سال انتظار کیا۔ بڑی دیواروں پر نشان لگائے بڑی منتیں مانیں لیکن آج بغیر کوشش کے مل گیا"
میں نے کہا"ایسی کونسی دولت ہاتھ آگئی ہے جو خوشی کا یہ دھارا سارے وجود سے بہتا چلا جارہا ہے"
کہنے لگے کہ آج جو میں سیر کرنے نکلا تو راستے میں تین مرتبہ ٹھٹھکا۔پاؤں کچھ ٹھیک نہیں پڑتے تھے۔دل کا چلن بھی اچھا نہیں تھا. سوچا واپس لوٹ جاؤں لیکن واپس بھی نہ ہوسکا۔اپنی منزل تک پہنچ ہی گیا۔ نیول ہیڈکوارٹرز کے گھروں کے پاس جس دیوار سے سہارا لے کر کھڑا ہوا کرتا ہوں اس کے قریب چھوٹے چھوٹے بچے پٹھوگرم کھیل رہے تھے۔ تماشا کیا۔ آنکھیں بند کرکے اوپس لوٹنے کی ہمت مجتمع کرنے لگا۔ قریب سے چھوٹی منی سی آواز آئی" بابا! بابا!" میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو ایک چھوٹا سا بچہ نیلی نیکر اور سفید قمیض پہنے میرے قریب کھڑا تھا۔ بڑی سنجیدگی سے کہنے لگا۔" بابا آٹا لو گے کہ پیسہ؟" میں نے اس کے سر پر پیار دے کر کہا" دونوں بابا دونوں!_____دونوں لوں گا!!" میری یہ بات سن کر وہ اپنے گھر کی طرف بھاگ گیا۔ بڑی دیر تک دیوار سے ٹیک لگائے انتظار کرتا رہا۔ واپس آکر بولا" بابا! امی کہتی ہیں آٹاواٹا ہمارے پاس کوئی نہیں یہ اٹھنی لے لو اور اور جاو یہاں سے۔ معاف کرو." میں نے ہاتھ آگے بڑھا کر اس سے اٹھنی لے لی اور اس کے سر پر پیار دے کر وہاں سے چلا آیا۔
پھر شہاب صاحب نے اپنی بند مٹھی کھولی اور چمکتی ہوئی اٹھنی مجھے دکھا کر کہا" میرے پاس ایک جھولی ضرور تھی لیکن کئی سال سے خالی تھی۔آج اس میں خیر پڑگئی اور میں سرا سر لبریز ہوگیا۔ اللہ کی مہربانی کے بھی کیا روپ ہیں۔ ایک چھوٹے سے بچے کو داتا بنا کر بھیج دیتا ہے اور سوالی کا سوال پورا کردیتا ہے۔"
شہاب صاحب اس واقعے سے اتنے مسرور تھے کہ ان کے پاؤں زمین پر نہ پڑتے تھے۔ بار بار اٹھنی جیب سے نکال کر دیکھتے اور بار بار اسے احتیاط سے جیب میں ڈال کر اوپر رومال ٹھونس لیتے۔
اگلے روز انکی روح پرواز کر گئی
انا للہ و انا الیہ راجعون۔۔
بابا صاحبا از اشفاق احمد
No comments