پختہ سڑک اور گیس کی نعمت سے محروم
میرا نام محمد محمود رضا ھے
میں خالص دیہاتی آدمی ہوں میرا گاوں آج بھی پختہ سڑک اور گیس کی نعمت سے محروم ہے_ بچپن سے ایک بات دل میں بیٹھی تھی کہ شہر اچھے ہوتے ہیں دیہاتوں میں کیا رکھا ہے ? بڑا ہوا تو پھر شہروں کا رخ کروں گا _ شہروں میں رہنے کی حسرت تھی اور بڑے لوگوں سے تعلقات کا بھی نشہ تھا_ اپنے دیہاتی ہونے سے شرم محسوس ہوتی تھی _
پھر جوانی آ گئی پیٹ کی آگ نے گھر سے نکال دیا_ شہروں کا رخ کیا, ہوٹلوں میں رہا, عمدہ کھانے کھائے, بڑے لوگوں سے تعلق بھی بنا لیے مگر دل دیہات سے نہ نکل سکا_ شہر دل کو نہیں بھا رہا بڑے لوگوں سے تعلقات رکھنا نہ رکھنا ایک جیسا دکھائی دیتا ہے_
شہر کیا ہے ? آپ کسی کے ہاں مہمان جائیں کھانا ہوٹل میں کھانے کے بعد آپ فارغ ہیں_ گھر اتنے تنگ کہ باہر کے بندے کی گنجائش ہی نہیں_ تعلقات مفادات کی حد تک_ مفاد نکل گیا پھر کسی نے پوچھنا بھی نہیں_ ایک گھر میں ماتم ہے تو دوسرے میں شادی چل رہی ہے_ پڑوسی بھوکا ہے تو کوئی خبر ہی نہیں_ ایک محلہ یا ٹاون میں عمر گزار دی جائے گی مگر معلوم نہیں ہو سکے گا کہ کون کہاں کا ہے? کوئی فٹ پاتھ پر سویا ہے تو سویا رہے گزرنے والا فون سنتےسنتے گزر جائے گا_ کوئی بارش میں بھیگ رہا ہے تو بھیگتا رہے چھتری تلے جگہ نہیں ملے گی_ روڈ پر کھڑے ہیں تو ساتھ کوئی بٹھائے گا نہیں_
یہ شہر ہے یہ شہری روایات و اخلاقیات ہیں_ نہ ساتھ چلنے کی باتیں _ نہ وعدے نہ قسمیں نہ کوئی اصول و قانون_
ادھر دیہات کو دیکھیں
کوئی فوت ہو گیا تو سارے گاوں والے قبر کھودنے پہنچے ہونگے تین دن تک کھانا محلے دار دینگے _ کوئی بیمار ہو گیا تو گاوں کا گاوں عیادت کے لیے جائے گا_ لوگ یہ بھی یاد رکھتے ہیں کہ اس بندے نے فلاں وقت میں یہ احسان کیا تھا اسے یاد رکھا جائے _ جہاں بندہ نمک کھا لے وہاں نمک حرامی کا تصور بھی نہیں اگر کوئی نمک حرامی کرے تو گاوں اسے اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا_ کوئی اجنبی گاوں میں آ جائے تو اسے چھت بھی میسر آتی ہے اور کھانا پینا بھی_
شہر میں دو کمروں کا گھر عیاشی کی علامت سمجھا ہے جبکہ گاوں میں دو کمروں کا گھر نوکر کا ہوتا ہے_ شہروں میں مکانات سے مکانات جڑے ہوتے ہیں_ قدرتی ہوا بھی میسر نہیں ہوتی جبکہ گاوں میں چناوں کے درخت اور کھلی آب و ہوا ہوتی ہے_ شہروں میں اعلی قسم کے ہوٹلوں پر کھانے پکے ہوتے ہیں مگر دیہاتی ماں کے ہاتھوں پکی چپاتیوں کی لذت ان ہوٹلوں میں نہیں ملتی_
شہر کیا ہے شہری لوگ کیا ہیں_ تلخ تجربات ہیں _ بس رزق شہروں سے وابستہ ہو چکا ہے
یہ ھے ھمارا گاوں طاھر بھٹہ 😘
میں خالص دیہاتی آدمی ہوں میرا گاوں آج بھی پختہ سڑک اور گیس کی نعمت سے محروم ہے_ بچپن سے ایک بات دل میں بیٹھی تھی کہ شہر اچھے ہوتے ہیں دیہاتوں میں کیا رکھا ہے ? بڑا ہوا تو پھر شہروں کا رخ کروں گا _ شہروں میں رہنے کی حسرت تھی اور بڑے لوگوں سے تعلقات کا بھی نشہ تھا_ اپنے دیہاتی ہونے سے شرم محسوس ہوتی تھی _
پھر جوانی آ گئی پیٹ کی آگ نے گھر سے نکال دیا_ شہروں کا رخ کیا, ہوٹلوں میں رہا, عمدہ کھانے کھائے, بڑے لوگوں سے تعلق بھی بنا لیے مگر دل دیہات سے نہ نکل سکا_ شہر دل کو نہیں بھا رہا بڑے لوگوں سے تعلقات رکھنا نہ رکھنا ایک جیسا دکھائی دیتا ہے_
شہر کیا ہے ? آپ کسی کے ہاں مہمان جائیں کھانا ہوٹل میں کھانے کے بعد آپ فارغ ہیں_ گھر اتنے تنگ کہ باہر کے بندے کی گنجائش ہی نہیں_ تعلقات مفادات کی حد تک_ مفاد نکل گیا پھر کسی نے پوچھنا بھی نہیں_ ایک گھر میں ماتم ہے تو دوسرے میں شادی چل رہی ہے_ پڑوسی بھوکا ہے تو کوئی خبر ہی نہیں_ ایک محلہ یا ٹاون میں عمر گزار دی جائے گی مگر معلوم نہیں ہو سکے گا کہ کون کہاں کا ہے? کوئی فٹ پاتھ پر سویا ہے تو سویا رہے گزرنے والا فون سنتےسنتے گزر جائے گا_ کوئی بارش میں بھیگ رہا ہے تو بھیگتا رہے چھتری تلے جگہ نہیں ملے گی_ روڈ پر کھڑے ہیں تو ساتھ کوئی بٹھائے گا نہیں_
یہ شہر ہے یہ شہری روایات و اخلاقیات ہیں_ نہ ساتھ چلنے کی باتیں _ نہ وعدے نہ قسمیں نہ کوئی اصول و قانون_
ادھر دیہات کو دیکھیں
کوئی فوت ہو گیا تو سارے گاوں والے قبر کھودنے پہنچے ہونگے تین دن تک کھانا محلے دار دینگے _ کوئی بیمار ہو گیا تو گاوں کا گاوں عیادت کے لیے جائے گا_ لوگ یہ بھی یاد رکھتے ہیں کہ اس بندے نے فلاں وقت میں یہ احسان کیا تھا اسے یاد رکھا جائے _ جہاں بندہ نمک کھا لے وہاں نمک حرامی کا تصور بھی نہیں اگر کوئی نمک حرامی کرے تو گاوں اسے اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا_ کوئی اجنبی گاوں میں آ جائے تو اسے چھت بھی میسر آتی ہے اور کھانا پینا بھی_
شہر میں دو کمروں کا گھر عیاشی کی علامت سمجھا ہے جبکہ گاوں میں دو کمروں کا گھر نوکر کا ہوتا ہے_ شہروں میں مکانات سے مکانات جڑے ہوتے ہیں_ قدرتی ہوا بھی میسر نہیں ہوتی جبکہ گاوں میں چناوں کے درخت اور کھلی آب و ہوا ہوتی ہے_ شہروں میں اعلی قسم کے ہوٹلوں پر کھانے پکے ہوتے ہیں مگر دیہاتی ماں کے ہاتھوں پکی چپاتیوں کی لذت ان ہوٹلوں میں نہیں ملتی_
شہر کیا ہے شہری لوگ کیا ہیں_ تلخ تجربات ہیں _ بس رزق شہروں سے وابستہ ہو چکا ہے
یہ ھے ھمارا گاوں طاھر بھٹہ 😘
No comments