سرکاری ملازمین اور تنخواہ میں اضافہ - Global News Network

Breaking News

سرکاری ملازمین اور تنخواہ میں اضافہ

سرکاری ملازمین اور تنخواہ میں اضافہ
تحریر:ف۔ش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔‌۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جیسا کہ تمام سرکاری ملازمین جانتے ہیں کہ ہر سال جون میں سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ کر کے ملازمین کو ریلیف فراہم کیا جاتا ہے، میں اسی معاملے پر اپنے ناقص علم کی بنیاد پر چند سوالات اٹھاؤں گا اور تمام ملازمین سے گزارش کرتا ہوں کہ ان سوالات پر غور کریں اور اپنے اپنے دفاتر کے تجربہ کار افراد سے اس معاملے پر بات چیت کر کے کوئی لائحہ عمل ترتیب دیں تاکہ ملازمین کی مزید حق تلفی بند ہو۔
ہر سال جون میں ملازمین کو چند فیصد ایڈہاک ریلیف الاؤنس دیا جاتا ہے جس سے تنخواہ میں معمولی سا اضافہ ہو جاتا ہے اور سال بھر کے لیے ملازم کو لالی پوپ دے دیا جاتا ہے اور وہ اس انتظار میں سال گزارتا ہے کہ شاید اگلے برس خاطر خواہ اضافہ ہو گا جس سے اس کے اخراجات بہتر طریقے سے چل پائیں گے مگر ہر سال کی طرح اس سال بھی حکومت نے ملازمین کو ٹھینگا دکھانے کا مکمل پلان بنا رکھا ہے۔
پہلا سوال یہ ہے کہ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ حکومت ہر سال اسکیل ریوائز کرنے کی بجائے صرف ایڈہاک ریلیف دے کر ملازمین کا منہ کیوں بند کر دیتی ہے؟ 
اس کی کئی ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہے مگر سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ایڈہاک ریلیف صرف حاضر سروس ملازم کو ملتا رہتا ہے، اس دوران اگر کوئی ساری زندگی سروس کر کے ریٹائر ہو جائے تو اس کی بنیادی تنخواہ پر ہی پینشن بنے گی جبکہ ایڈہاک ریلیف صرف حاضر سروس ملازم کے لیے ریلیف ہوتا ہے، اس طرح حکومت اپنے وسائل بچا لیتی ہے، ملازم تھا تو کام کرتا تھا ریلیف دے دیا، بڈھیا سٹھیا گیا ہے اب اس کو ریلیف دینے کا کیا فائدہ جبکہ کسی کام کا بھی نہیں رہا۔ اور یہی سلوک دوران سروس وفات پا جانے والے ملازم کی بیوہ کی پینشن میں بھی ہوتا ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ ملازم کی تنخواہ میں 45 فیصد ہاؤس رینٹ الاؤنس بھی پورا نہیں ملتا۔ ملازم کی بنیادی تنخواہ کا 45 فیصد الاؤنس مکمل نہیں دیا جاتا بالکہ دھوکہ دیا جاتا ہے کیونکہ یہ موجودہ تنخواہ کی بجائے سن 2008 کی مذکورہ اسکیل کی بنیادی تنخواہ کے مطابق دیا جاتا ہے جس سے آپ سن 2020 میں ہاسٹل کا ایک کمرہ بھی کرائے پر نہیں لے سکتے۔ تو سوال یہ ہے کہ ایڈہاک ریلیف دینے کی بجائے ملازمین کا ہاؤس رینٹ الاؤنس موجودہ بنیادی تنخواہ کے مطابق کیوں نہیں دیا جاتا؟ اس کا سادہ اور مدلل جواب یہ ہے کہ اس الاؤنس کی ضرورت چھوٹے ملازم کو زیادہ ہے کیونکہ اس کے پاس نا تو رہائش کے لیے اپنا گھر ہوتا ہے اور نا ہی سرکاری ہاؤسنگ اسکیم میں اسے حکومت نے گھر الاٹ کرنا ہوتا ہے، لہذا سر ڈھانپنے کے لیے چھت کے بندوبست کی غرض سے وہ کرائے پر گھر لیتا ہے اور اپنی آدھی سے زیادہ تنخواہ وہ گھر کے کرائے میں جھونک دیتا ہے۔ اس کے برعکس بڑے اسکیل کے ملازمین جنہیں "ملازمین" کہنا ان کی افسر شاہی کی توہین ہوگی، یہ خود کو "پالیسی میکرز" کہلانا پسند کرتے ہیں کیا کبھی ایسی پالیسی بنائیں گے جس سے ان کو خود کوئی فائدہ نا پہنچتا ہو؟ جی ہاں، ان افسر شاہوں کو ہاؤس رینٹ الاؤنس کے بڑھنے کا ذرہ برابر بھی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ یہ سرکاری بنگلوں میں رہتے ہیں اور ان کا الاؤنس تنخواہ میں سے ویسے بھی کٹ جاتا ہے۔ مزید برآں صاحب بہادر کی بیگم کو سرکاری بنگلے میں کوئی گملا نا پسند ہو تو اس گملے یا کیاری کی تبدیلی کے لیے کھلم کھلا بجٹ بھی دستیاب ہوتا ہے۔ ایسا سکّھا شاہی نظام کیا کبھی چھوٹے ملازم کے گھر کے کرائے کے بارے میں سوچے گا؟

ایک سوال یہ بھی بنتا ہے کہ اس ہوشربا مہنگائی میں کنوینس الاؤنس بھی سن 2005 کے اسکیل کے مطابق کیوں دیا جا رہا ہے؟ ہم سن 2020 میں جی رہے ہیں اور تنخواہیں پندرہ پندرہ برس پرانی لے رہے ہیں، پندرہ برس میں ایک جنریشن جوان ہو جاتی ہے اور یہاں افسر شاہی نظام کی ڈھٹائی ختم ہونے پر نہیں آ رہی۔ جی اس میں بھی افسر شاہی اور سکّھا شاہی نظام براجمان ہے، یہ پالیسی میکرز کبھی بھی کنوینس الاؤنس بڑھانے کی تجویز نہیں دیں گے۔ کیونکہ یہ خود اور ان کے نافرمان بچے ابا کی سرکاری گاڑیوں میں موجیں مارتے ہیں۔ ان کو کنوینس الاؤنس کی ذرہ برابر بھی فکر نہیں کیونکہ یہ ان کی تخواہ میں سے پہلے ہی کٹ جاتا ہے جس کے بدلے میں ان کو لمبی لمبی گاڑیاں اور پٹرول کے ڈرم دے دئے جاتے ہیں۔ ان کو سائیکل اور موٹر سائیکل پر خجل خوار ہونے والے لاکھوں ملازمین کے حالات کا انداذہ تک نہیں ہوتا۔
یہ اکیسویں صدی ہے اور نظام انگریز کا بنایا ہوا چل رہا ہے جس میں افسران خوب رج کے سرکاری خزانے سے مال اور مراعات ہتھیا کر ہندوستان پر راج کرتے تھے، چھوٹے ملازمین چونکہ ان پڑھ ہوتے تھے اس لیے ان کو تنخواہ اور اس کے اجزاء کا علم ہی نہیں ہوتا تھا۔ مگر اب ایسا نہیں چلے گا، اب سکّھا شاہی کی جڑیں اکھاڑنی پڑیں گی۔ ملازمین کو شعور دلانا ہو گا تاکہ اشرافیہ ان کی حق تلفی بند کرے۔ یہ چند ہزار افسران ملک بھر کے ملازمین پر اپنے فائدے کی بنائی ہوئی پالیسی نافظ کر کے ہمارے ہی خون پسینے پر اپنے کمرے ٹھنڈے کر کے ہمارا حق مارتے ہیں۔ یہ انگریز کا ملک نہیں ہے۔ اب وقت بدل رہا ہے۔ سوچیں اور اس پر لائحہ عمل ترتیب دیں۔

#SayNoToStatusQuo
#StopFinancialDiscrimination
#SayNoToAfsarShahi

اس میسج اور ہیش ٹیگ کو پھیلائیں تاکہ یہ پاکستان میں ٹاپ ٹرینڈ بن جائے اور ایوان بالا کے در و دیوار ہلا دے۔

No comments